تم فقط میرے
تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر10
وہ کچھ دیر مزید، اس نا سمجھ میں آنے والی بے چینی کا شکار رہا اور پھر اللّٰه اللّٰه کرکے، تین بجے کے بعد، نیند اس پر مہربان ہوئی اور اس کی بے چینی میں کمی واقع ہوئی۔
وہ دو گھنٹے ہی سویا تھا کہ پھر اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا اور وہ جاگ گیا۔ اسے بلا وجہ ہی ہلکے ہلکے پسینے آنے لگے، اس کا حلق بھی قدرے خشک ہوا تھا، سو وہ اٹھا اور کمرے کا لاک کھول کر پانی پینے کے لیے کچن تک گیا، پھر اسے یاد آیا کہ اس نے تو رات کو عنقا کو کمرے میں آنے ہی نہیں دیا تھا۔
اس نے پانی پینے کے بعد اِدھر اُدھر نظریں دوڑا کر دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھی، سامنے عادل کا کمرہ تھا،اس سے پہلے وہ اس پر کسی قسم کا شک کرتا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی، اسے عنقا کا مارا گیا تھپڑ یاد آیا تھا، وہ حیران تھا کہ یہ یاد آنے پر وہ مسکرایا کیسے۔۔!!
بہرکیف، اس کے قدم گھر کے گیسٹ روم کی طرف مائل ہوئے، اسے یقین تھا کہ وہ وہیں ہو گی، وہ گیسٹ روم تک گیا تو وہاں کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور وہ اندر شہزادیوں کی سی بے فکری لیے، بڑے مزے سے گہری نیند میں غرق تھی۔
عدیل کو اس کی پرسکون نیند پر بڑا رشک آیا، اس کا دل کیا کہ اسے جگا کر اس کی نیند کا بیڑہ غرق کردے، اس کا سکون تہس نہس کر دے لیکن اگلے لمحے ، اس نے اپنی یہ جارحانہ سوچ جھٹک کر ، اس معصوم پر مہربانی کی اور خود ، بیڈ کی بائیں جانب پڑے صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا،اس نے اپنی پلکیں، ذرا سی جھکا لی تھیں اور پھر نجانے کیوں۔۔!! وہ وہاں بیٹھا، بے مقصد ہی ، اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے عنقا کا معصوم اور طمانیت سے بھر پور چہرہ دیکھتا گیا۔
اس کے بعد چند منٹوں میں ، ایسی بے آرام سی حالت میں بیٹھا ہونے کے باوجود بھی وہ سو چکا تھا، کچھ دیر بعد، فجر کی اذان کی آواز سے اس کی دوبارہ آنکھ کھلی، وہ نماز پڑھنے کے خیال سے وہاں سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا۔
نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد وہ خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا، اریزے کے جانے کے بعد یہ اس کی پہلی نماز تھی اور اس کے آنے سے پہلے بھی وہ بہت بے قاعدگی سے ، کبھی کبھی ہی پڑھا کرتا تھا۔
اریزے جتنی بھی ماڈرن سہی لیکن نماز کی پابند ضرور تھی اور اپنی موجودگی میں عدیل کو بھی پابند بنا چکی تھی۔
یقیناً ، وہ عدیل کی زندگی میں ایک حسین اضافہ تھی۔
×××××××
عنقا کی صبح جس وقت آنکھ کھلی، تب تک عادل اپنی یونیورسٹی اور عدیل اپنے آفس جا چکا تھا، مصطفیٰ صاحب کو آج اپنا منتھلی چیک اپ کرانے ڈاکٹر کے ہاں جانا تھا ، اس لیے وہ آج آفس نہیں گئے اور فوزیہ بیگم کی بھی آج کوئی خاص مصروفیت نہ تھی اس لیے وہ بھی آج گھر پر ہی موجود تھیں۔
عنقا کو حیرت تھی کہ اس جنونی پلس جنگلی آدمی نے، دوبارا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں کی، وہ اٹھتے ہی اپنے کمرے میں واپس آئی، اس نے واڈروب کھول کر، عدیل کے کپڑوں کے ساتھ، ہینگرز میں لٹکے، نفاست سے استری کیے گئے، اریزے کے نئے نکور کپڑوں میں سے رائل بلو اور وائٹ کلر کے کامبینیش والا، ایک ڈریس نکالا اور فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔
×××××
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی، اریزے کا سوٹ، اس پر کافی جب رہا تھا، اسے اس لمحے شدت سے اریزے کی یاد آئی، اسے رونا بھی آیا کہ کیسے وہ کچھ دن پہلے تک، ہر اس چیز کی مالکن تھی جس کا حق، آج ، قسمت نے بڑے وثوق سے، عنقا کے سپرد کیا تھا، اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی، اپنی بہن کی چھوڑی گئی ہر چیز پر ، زبردستی، اپنا قبضہ لینا پڑا۔۔۔ وہ حقیقتاً، اندر تک دکھی تھی۔
بہر کیف، اس نے بہت کوشش کر کے، بڑی مشکل سے، اپنے تواتر سے بہتے آنسوؤں کو، مزید بہنے سے روکا اور پھر سے منہ دھو کر آئی، اس کے بعد اس نے اپنے الجھے ہوئے خراب حال بالوں کو سنوار کر، سلیقے سے ، پونی ٹیل میں سیٹ کیا اور میک اپ کے نام پر، سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر ترتیب سے رکھی گئی لپ اسٹکس میں سے، لائٹ پنکِش، کیرٹ کلر کی لپ اسٹک لے کر لگائی۔
×××××
اب، تقریباً، صبح کے دس بجے کا وقت تھا، اس وقت ملازمہ بھی گھر پر تھی ، اس لیے عنقا نے اسے اپنے ناشتے کا کہا اور خود ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی انتظار کرنے لگی۔
اتنے میں مسٹر اینڈ مسز مصطفیٰ بھی وہاں تشریف لے آئے، شاید ان دونوں نے بھی ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تھا۔ ان دونوں کے آنے پر عنقا نے بڑے احترام اور عزت سے، لہجے کو بالکل نارمل رکھتے ہوئے، سلام ہی کیا تھا کہ ملازمہ بھی آن بھی پہنچی، اس نے ناشتہ سرو کیا اور چلی گئی، عنقا بھی اپنے سلام کا جواب پا کر ، کھانے میں مشغول ہوگئی، جبکہ وہ دونوں، پیچھے متعجب تھے کہ یہ اتنی نارمل کیسے ہے۔۔!!
ایک ان کا بیٹا تھا کہ بات بات پھر طوفان کھڑا کر دیتا تھا اور یہ تھی کہ جس پر گزرے واقعات کی تکلیفوں کی کوئی چھاپ تک نظر نہ آئی، ان دونوں کے عدیل کے ہر سلوک کی مکمل سُن گن تھی، اب تو اپنے آپ میں ہی حد درجہ شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔
جبکہ عنقا نے اپنے کسی عمل سے، ان کو شرمندہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، کیوں کہ ہر دفعہ کسی کی زیادتیوں کا بدلہ جوابی کارروائی سے نہیں لیا جاتا ، کبھی کبھار ، اپنے حوصلے اور ظرف کی طاقت سے بھی اگلے کو شکست دی جا سکتی ہے، اور وہ، اس وقت غیر دانستہ طور پر ، ان کو اسی طرح شکست دے چکی تھی۔
اس کے علاؤہ، اس کا قسمت اور اس کے ہر کھیل پر بھرپور اعتقاد تھا، اس لیے وہ اپنے ساتھ ہوئے سانحے، اپنے ساتھ ہوئی ٹریجڈی پر، اللّٰه سے، جو تھوڑا سا شکوہ کرنے کا اردہ رکھتی تھی، اس نے وہ بھی ترک کر دیا۔
وہ بہت صبر کے ساتھ، اللّٰه سے گلے کرنے کی تمام نیتیں بھی بدل چکی تھی، اس نے اپنی قسمت سے سمجھوتا کر لیا تھا، اس نے ہر چیز کو قبول کر لیا تھا۔۔ شاید اپنے رشتے کو بھی۔۔!! شاید عدیل کو بھی۔۔!!
××××
ناشتے کے بعد ، اس نے عدیل کے کمرے سے اپنے لیے کچھ چیزیں اکھٹی کیں اور گھر کے لاکڈ کمروں میں سے ایک کمرہ کھلوا کر اسے اپنے لیے سیٹ کروایا۔
اب اس کی روزانہ کی روٹین یہ تھی کہ وہ عدیل کی موجودگی میں خود کو کمرے میں بند کر لیتی اور اس کے جانے بعد کچھ دیر گھر کے لان میں واک کرتی یا پھر اپنی امی سے فون پر باتیں کر لیتی تھی۔۔ اس کا ظرف تھا کہ اس نے اپنے والدین سے بھی کوئی گلہ نہیں کیا تھا۔
عنقا کو ایک بات پر شدید تعجب تھا کہ عدیل نے اُس کے ، اس اقدام پر کیوں کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کر رہا۔۔؟؟ باقی گھر والے تو اس کے لیے، تھے ہی گونگے بہرے۔۔!! اور پتہ نہیں کیسے۔۔!! عادل میں سے بھی اس کا سارا انٹرسٹ خود بخود ختم ہوچکا تھا۔۔!!
تقریباً دو ہفتے گزرنے کو تھے اور عدیل کی طرف سے خاموشی برقرار تھی، نہ عنقا کی روٹین تبدیل ہوئی، نہ عدیل کا سکوت ٹوٹا۔۔!! اس کے پہلے دن والی حرکات دیکھ کر تو عنقا کو ایسا لگا تو نہیں تھا کہ وہ اسے ، اس طرح سکون سے جینے دے گا۔۔۔ اس لیے ، اس کا بے ضرر برتاؤ، عنقا کو شدید حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔۔!!
عدیل کو خود بھی اپنا یہ رویہ، بالکل سمجھ نہ آیا۔۔!! وہ تو خود بھی اس کو ، مستقل اذیتیں دینے کے ارادے سے بیاہ کر لایا تھا۔۔!! پھر وہ کیوں اسے، اس کے حال پر چھوڑ کر سکون سے جینے دے رہا تھا۔۔ وہ کیوں اسے کوئی تکلیف نہیں دے پا رہا تھا۔۔!!
شاید وہ سمجھ چکا تھا۔۔ کہ اریزے کی موت میں عنقا کا کوئی ہاتھ نہیں۔۔ شاید اس نے یقین کر لیا تھا۔۔ کہ اس کی موت حادثاتی تھی۔۔ جس میں کسی اور کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔۔!!
اور اب تو اسے اپنی حرکت پر بھی کچھ کچھ افسوس ہونے لگا تھا۔۔ عادل کی شکل دیکھ کر اسے احساس ہوتا تھا۔۔ کہ اس نے، اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔!!